Advertisement

Nadir Shah|نادر شاہ افغانی

 سلطان نادر شاہ 

Nadir shah


نادر شاہ: لکڑہارے سے دنیا کی ایک طاقتور فوج کھڑی کرنے تک، اگر نادر شاہ نہ ہوتا تو شاید آج ایران بھی نہ ہوتایہ اٹھارہویں صدی کے تقریباً وسط کی بات ہے جب کوہ قاف کی چوٹیوں کے سائے میں دنیا کی اس وقت کی ایک ’طاقتور ترین فوج‘ سلطنت عثمانیہ پر حملے کے لیے تیار کھڑی تھی۔

مؤرخین جب اسے اپنے وقت کی سب بڑی فوج کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسے صرف ایشیا یا مشرق وسطیٰ کی بڑی فوج کہہ رہے ہیں بلکہ وہ اس کا موازنہ اس زمانے کی یورپ کی بڑی فوجوں سے بھی کرتے ہیں۔

ایک مختصر عرصے میں مغرب میں سلطنت عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر مشرق میں دلی تک بڑی جنگی مہمات میں کامیابی حاصل کرنے والی یہ فوج اپنے کمانڈر نادر شاہ کی پوری زندگی کی حکمت عملی اور دن رات محنت کا نتیجہ تھی۔

نادر شاہ اور ان کی فوج کی اس وقت یعنی سن 1743 تک کی کارروائیوں کی جھلک مؤرخ مائیکل ایکسوردی کی ان چند سطروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ’نادر شاہ نے ایران کو افغانوں کے قبضے سے نکالا، عثمانی ترکوں کو ایرانی سرزمین سے بے دخل کیا، منصوبہ بندی سے روسیوں سے اپنے علاقے خالی کروائے، عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ کیا اور انھیں شکست دی، اپنے آپ کو ایران کا بادشاہ بنایا، افغانوں پر ان کے علاقوں میں گھس کر حملہ کیا اور وہ علاقے دوبارہ فتح کیے، پھر انڈیا پر حملہ کر کے دلی فتح کی، وسطی ایشیا میں داخل ہو کر ترکمان اور ازبکوں کو قابو میں لا کر دوبارہ مغرب کا رخ کیا اور پھر سے عثمانیوں کے خلاف کامیاب جنگ کی۔‘

ایکسوردی لکھتے ہیں کہ ‘نادر شاہ کی فوج کے عسکری معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے دو کپتانوں نے آگے چل کر خود دو الگ الگ ریاستوں افغانستان اور جارجیا کی بنیاد رکھی۔

کہا جاتا ہے کہ اگر نادر شاہ نہ ہوتے تو شاید ایران بھی نہ ہوتا اور وہ ’افغانوں، روسیوں اور عثمانیوں میں تقسیم ہو جاتا۔‘ جب نادر شاہ نے ایرانی سلطنت کا اقتدار سنبھالا تو یہ تقسیم کافی حد تک ہو چکی تھی۔

نادر شاہ کے دلی پر حملے نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی مغلیہ سلطنت کی کمزوری کے بارے میں الرٹ کر دیا اور ایکسوردی کا تو خیال ہے کہ ’اگر نادر شاہ نہ ہوتا تو برطانوی دور دیر سے اور مختلف انداز میں شروع ہوتا اور یا شاید کبھی نہ بھی ہوتا۔‘

نادر شاہ کسی شاہی یا نوابی خاندان میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ ایرانی سلطنت کے دارالحکومت سے دور سرحدی علاقے میں پیدا ہونے والے اس جنگجو کو جو تھوڑی بہت مراعات اپنے والد کی وجہ سے مل سکتی تھیں اس کا بھی امکان ان کی جلد وفات کی وجہ سے ختم ہو گیا تھا۔

اس کے باوجود گزر بسر کے لیے جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے بیچنے سے زندگی شروع کرنے کے تقریباً تیس برس میں وہ خود اپنی کھڑی کی ہوئی دنیا کی ایک طاقتور فوج کے کمانڈر بن چکے تھے۔

لیکن اس جنگجو کی کہانی میں بھی اکثر کہانیوں کی طرح عروج کے بعد انتہائی زوال آ جاتا ہے۔ نادر شاہ اپنے بیٹوں کے لیے ایک مضبوط ریاست اور اپنی فوج نہ چھوڑ کر جا سکے۔

مؤرخین کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو ان کا طاقتور خاندان نہ صرف ایران کی سرحدوں کو مستحکم کرتا بلکہ ایسی تبدیلیاں لے کر آتا جیسی یورپ کی ریاستوں میں ایک دوسرے سے مقابلے کی فضا اور جدید فوج رکھنے کے تقاضوں نے اسی دور میں ممکن بنائی تھیں۔

مؤرخین کے خیال میں ’یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ افغانوں کے ہاتھوں شکست کے بعد دوبارہ اٹھتا ہوا ایران نسبتاً کمزور مغل اور عثمانی سلطنتوں سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرتا۔ اور ایک ایسے خاندان کی قیادت میں، جو شعیہ سنی کے فرق کو مٹانا چاہتا تھا، یورپ سے مقابلے میں اسلامی دنیا کے زوال کو روک سکتا تھا۔‘

لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ نادر شاہ کی کہانی کا انجام اس کو ایک ’ٹریجڈی‘ بنا دیتا ہے، جسے آج جنگی کامیابیوں سے زیادہ نادر شاہ کے ظلم اور سفاکی اور آخری دنوں کے ذہنی انشتار کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔

خطرناک سرحدی علاقے میں پیدائش

مائیکل ایکسوردی نے اپنی کتابوں Iran: Empire of the Mind اور The Sword of Persiaمیں نادر شاہ کی زندگی کے نشیب و فراز پر تفصیل سے نظر ڈالی ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ نادر شاہ کی تاریخ پیدائش اور ابتدائی زندگی کی تفصیلات واضح نہیں ہیں اور ان پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

نادر شاہ ایران سلطنت کے مشرقی صوبے خراسان کے شمالی حصے میں ایک خطرناک علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف آرا ہیں لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ تاریخ چھ اگست 1698 تھی اور جائے پیدائش درہ غاز کے خطے میں اللہ اکبر پہاڑ پر دستگرد نامی گاؤں تھا۔ ان کی مادری زبان ترکی تھی لیکن جلد ہی انھوں نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔

ان کے والد ترکمانوں کے افشر قبیلے میں چرواہے تھے جن کا تعلق نچلے لیکن عزت سے دیکھے جانے والے طبقے سے تھا۔ شاید وہ گاؤں کے سربراہ بھی تھے۔

مؤرخین کے خیال میں ’یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ افغانوں کے ہاتھوں شکست کے بعد دوبارہ اٹھتا ہوا ایران نسبتاً کمزور مغل اور عثمانی سلطنتوں سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرتا۔ اور ایک ایسے خاندان کی قیادت میں، جو شعیہ سنی کے فرق کو مٹانا چاہتا تھا، یورپ سے مقابلے میں اسلامی دنیا کے زوال کو روک سکتا تھا۔‘

لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ نادر شاہ کی کہانی کا انجام اس کو ایک ’ٹریجڈی‘ بنا دیتا ہے، جسے آج جنگی کامیابیوں سے زیادہ نادر شاہ کے ظلم اور سفاکی اور آخری دنوں کے ذہنی انشتار کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔

خطرناک سرحدی علاقے میں پیدائش

مائیکل ایکسوردی نے اپنی کتابوں Iran: Empire of the Mind اور The Sword of Persiaمیں نادر شاہ کی زندگی کے نشیب و فراز پر تفصیل سے نظر ڈالی ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ نادر شاہ کی تاریخ پیدائش اور ابتدائی زندگی کی تفصیلات واضح نہیں ہیں اور ان پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

نادر شاہ ایران سلطنت کے مشرقی صوبے خراسان کے شمالی حصے میں ایک خطرناک علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف آرا ہیں لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ تاریخ چھ اگست 1698 تھی اور جائے پیدائش درہ غاز کے خطے میں اللہ اکبر پہاڑ پر دستگرد نامی گاؤں تھا۔ ان کی مادری زبان ترکی تھی لیکن جلد ہی انھوں نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔

ان کے والد ترکمانوں کے افشر قبیلے میں چرواہے تھے جن کا تعلق نچلے لیکن عزت سے دیکھے جانے والے طبقے سے تھا۔ شاید وہ گاؤں کے سربراہ بھی تھے۔

نادر شاہ ایک دوہری ثقافت میں بڑے ہوئے۔ ایرانی سلطنت کا ترکی بولنے والا شہری جس کی شخصیت کا ایک پہلو وہ فارسی ثقافت بھی تھی جو استنبول سے سمرقند اور دلی تک اپنائی جا چکی تھی۔

وہ دس سال کی عمر میں ایک اچھے گھڑسوار اور شکاری کے طور پر جانے جاتے تھے جو تیر اندازی اور نیزے کے بھی ماہر تھے۔ ان کے بچپن میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور خاندان غربت میں پھنس گیا۔

ایکسوردی لکھتے ہیں کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت مرد کے بغیر بہت کمزور ہو جاتی تھی ان کی ماں نے ایک غریب بیوہ کے طور پرہمت نہیں ہاری۔ مؤرخ کہتے ہیں کہ شاید اپنی ماں کو اس طرح محنت کرتے دیکھنے سے ہی اس کے اندر عورتوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوا جس کا ثبوت انھوں نے بعد میں مہمات کے دوران کئی بار پیش کیا۔

’وہ سختی کے یہ دن کبھی نہیں بھولے اور نہ ہی ان دنوں کے ساتھیوں کو، خاص طور پر اپنی ماں اور بھائی ابراہیم کو۔‘

ان پر ایسے دن بھی آئے جب وہ جنگل سے لکڑی چن کر اونٹوں اور خچروں پر شہر لے جا کر بیچتے تھے اور یہی ان کی آمدن کا ذریعہ تھا۔ ایکسوردی بتاتے ہیں کہ بادشاہ بننے کے بعد اپنے لکڑی چننے کے ان دنوں کے ایک ساتھی کو نوازتے ہوئے انھوں نے اسے کہا کہ ’مغرور مت ہو جانا، اس خچر کو اور لکڑیاں چننا یاد رکھنا۔‘

اگر اپنے والد کی وفات سے پہلے اس کا بچپن خوشگوار اور دوسرے بچوں پر رعب ڈالتے گزرا تو والد کی موت کے بعد غربت کی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوں سے کٹ گئے جیسے اب وہ ان میں فٹ نہیں ہوتے تھے۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ بادشاہ بننے کے بعد بھی اپنے ارد گرد کے ماحول میں، شاندار درباروں اور اشرافیہ میں ’فٹ نہ ہونے کا احساس‘ ساری زندگی ان کے ساتھ رہا۔

نادر شاہ کا ایران میں ’عسکری انقلاب‘ کی طرف پہلا قدم

پندرہ سال کی عمر میں وہ ایک مقامی سردار اور ابیورد شہر کے گورنر بابا علی بیگ کی سروس میں چلے گئے۔ بابا علی بیگ خراسان کے افشروں میں اہم سردار تھے۔ انھوں نے بابا علی بیگ کی سروس میں ایک تمنچی کی حیثیت سے شروعات کیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا دایاں بازو بن گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ایرانی سلطنت کے اس دور دراز علاقے میں بھی آتشیں اسلحہ پہنچ چکا تھا اور نادر نے اس وقت کے جدید جنگی طریقوں پر مبنی اپنے کیریئر کی بنیاد یہاں رکھ دی تھی۔

آنے والے مہینوں اور سالوں میں نادر شاہ نے ایران کی عسکری صلاحیتوں میں انقلاب برپا کر دیا۔

سنہ 1714/15 میں ایک ترک قبیلہ خراسان کی شمالی سرحد پار کر کے سلطنت کی حدود میں داخل ہو گیا۔ لڑائی ہوئی، بابا علی کی فوج کا پلڑا بھاری رہا، سینکڑوں حملہ آور قیدی بن گئے۔

نادر نے یقیناً اہم کردار ادا کیا ہو گا کہ بابا علی نے اس کامیابی کی اطلاع سلطنت کے دارالحکومت اصفہان جا کر ایران کے صفوی بادشاہ شاہ سلطان حسین تک پہنچانے کے لیے نادر شاہ کا انتخاب کیا۔

نادر شاہ کو بادشاہ کے سامنے پیش ہونے کے اعزاز کے ساتھ دربار میں ایک سو تمن بھی انعام میں ملے۔ یہ ان کا اصفہان کا پہلا دورہ تھا جس میں ان کا ایک بالکل نئی دنیا سے تعارف ہوا۔

’ایک تاریخی حوالے کے مطابق دربار کے کچھ اہلکاروں نے نادر کے ساتھ برا سلوک کیا اور برسوں بعد جب وہ شاہ بنا تو اس نے اپنے درباریوں کی تفریح کے لیے اس واقعے کو ایک تھیٹر ڈرامے کی صورت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔‘ نادر شاہ کا شاہی شان و شوکت دیکھنے کا یہ تجربہ اچھا نہیں رہا اور وہ کبھی اس چیز کو پسند نہیں کر سکے۔

یہ واقعہ ان کے اپنے ارد گرد ماحول میں مس فٹ ہونے کی ایک اور مثال ہے۔ دربار کے امرا اس قبائلی کی صلاحیتوں کو پہچان نہیں سکے تھے۔

تاہم اس وقت شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ان کی صفوی سلطنت تیزی سے اپنے زوال کی طرف بڑھ رہی تھی اور ان کے سامنے موجود قبائلی نادر شاہ پہلے ان کی سلطنت کے آخری سہارے اور پھر جلد ہی ان کے بادشاہ کے طور پر سامنے آنے والا تھا۔

صفوی سلطنت کا خاتمہ اور ایران پر افغانوں کا قبضہ

ایران کی دو سو سال پرانی صفوی سلطنت کو مشرق سے غلزئی افغانوں کی طرف سے چیلنج کیا گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ صفوی خاندان کا بادشاہ اصفہان میں ’23 اکتوبر سن 1722 کو افغانیوں سے مانگے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر ہتھیار ڈالنے کے لیے افغان محمود غلزئی کی خیمے تک پہنچا۔‘

اس وقت تک نادر شاہ مشھد کے قریب قلات شہر کو اپنا گڑھ بنا چکے تھے۔ یہ شہر سن 1382 میں امیر تیمور کا قلعہ بھی رہ چکا تھا۔ اس قبضے نے نادر کی پوزیشن علاقے میں دیگر سرداروں کے مقابلے میں مضبوط کر دی تھی۔

سن 1725/1726 میں اب سابقہ صفوی سلطنت کے ’دربدر خودساختہ بادشاہ‘طہماسپ قلی خان ایرانی سلطنت کی بساط پر ایک چھوٹا مہرہ تھے۔ انھوں نے اصفہان افغانوں کے ہاتھ میں جانے کے کچھ ہی عرصے بعد اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

لیکن اس وقت تک سینکڑوں برس پرانی اس سلطنت کے شمالی اور مشرقی علاقوں پر روس اور سلطنت عثمانیہ کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ایرانی علاقوں پر قبضے کی دوڑ میں ان دو بڑی سلطنتوں میں آپس میں لڑائی کا خطرہ بھی پیدا ہو چکا تھا۔

اس افراتفری کے دور میں نادر شاہ کی دھاک میں اضافہ ہو رہا تھا اور انھوں نے طہماسپ کی طرف سے دوستی کا پیغام قبول کر لیا۔ انیس ستمبر 1726 کو نادر شاہ نے اپنی اطاعت کے اعلان کے ساتھ طہماسپ کا ایک شاندار تقریب میں استقبال کیا۔ یہ وہ دن تھا جب نادر شاہ علاقائی شخصیت سے اٹھ کر اب قومی سطح کے سردار بن چکے تھے۔

نادر شاہ نے جلد ہی ایک جنگ میں طہماسپ کے ایک بڑے مخالف کو شکست دے کر اپنا رتبہ بڑھا لیا اور اب وہ ایرانی سلطنت کے دربدر بادشاہ کے قرچی باشی(کمانڈر ان چیف ) تھے۔

نادر شاہ کو طہماسپ قلی خان (طہماسپ کا غلام) کا خطاب دیا گیا۔ شاہ کا نام ملنا بہت اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اسی سال خزاں میں نادر شاہ نے اپنے شاہ کو مشہد کا مقدس شہر بھی فتح کر دیا۔

طہماسپ کی طاقت بڑھ رہی تھی اور اسی دوران روسیوں نے بھی ان بھی رابطے بڑھانا شروع کر دیے۔ روسی عثمانیوں کی طرف سے ایرانی سلطنت کے علاقوں میں پیش قدمی سے خوش نہیں تھے۔ انھوں نے شاہ طہماسپ اور نادر شاہ کی طرف سے سلطنت واپس لینے کی کوششوں میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا اعلان کیا۔ وہ ان دونوں کو عثمانیوں کے دشمن کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

نادر شاہ کی فوج اصل ہتھیاروں سے مشق کرتی تھی: یونانی تاجر کا آنکھوں دیکھا احوال

نادر شاہ نے آخر اتنی طاقتور فوج کھڑی کیسے کی؟ سن 1729 میں نادر شاہ نے مارچ میں نوروز کے موقع پر ہرات پر حملہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ ’یہ ایک اہم مہم تھی جس میں ان کی چھوٹی سی فوج کا ان کے اب تک کے سب سے طاقتور دشمن سے مقابلہ تھا۔‘

لیکن اس سے پہلے نوروز کا جشن دھوم دھام سے منایا گیا، جیسے کہ انھوں نے بعد میں بھی ہمیشہ کیا۔ انھوں اپنے افسران کی خوب تواضع کی اور گھوڑوں اور ہتھیاروں سمیت قیمتی تحائف تقسیم کیے۔

اس کے علاوہ اس جنگ کی تیاری کے لیے نادر شاہ نے وسیع پیمانے پر مشقیں شروع کروائیں جن کا ایک یونانی تاجر نے تفصیلی آنکھوں دیکھا احوال تاریخ کے لیے چھوڑا ہے۔

مشقوں میں مستقل اچھا مظاہرہ کرنے والوں کو چاہے وہ عام سپاہی ہی کیوں نہ ہوتے ایک سو یا پچاس سپاہیوں کا کمانڈر مقرر کر دیا جاتا تھا۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ وہ اچھے افسران کی سلیکشن یقینی بناتے تھے اور ترقی صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوتی تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ مشقوں میں ’سپاہی ایک دوسرے پر مختلف پوزیشنوں سے حملہ کرتے، دائرے اور جوابی دائرے بناتے۔۔۔ حملہ کرتے، بکھرتے اور پھر دوبارہ اسی پوزیشن پر اکٹھے ہوتے۔‘ ان مشقوں میں اصل ہتھیار استعمال ہوتے تھے اور احتیاط برتی جاتی تھی کہ کوئی زخمی نہ ہو۔ گھوڑوں پر سوار ہو کر مختلف ترکیبوں کی مشق ہوتی تھی۔ ہر گھڑ سوار مختلف ہتھیاروں کے ساتھ بھی الگ الگ مشق کرتا تھا۔‘

کنٹرول اور ڈسپلن کا یہ عالم تھا کہ بار بار کی مشقوں کے بعد جنگ میں نادر شاہ اور ان کے افسروں کے درمیان ایسی ہم آہنگی ہوتی تھی جیسے وہ نادر شاہ کے دماغ سے چل رہے ہوں۔ یونانی تاجر نے لکھا کہ مشقوں کے دوران نادر شاہ خود ہر عمل کا حصہ بنتے تھے اور ان کا جنگ میں بھی یہی اصول تھا۔

نادر شاہ اور طہماسپ مئی میں ہرات پر حملے کے لیے روانہ ہوئے۔ ابدالی افغان بھی صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اللہ یار خان کی قیادت میں اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک ہو گئے تھے۔ دونوں فوجوں کا ہرات سے پچاس کلومیٹر باہر سامنا ہوا۔

نادر شاہ کو اس لڑائی میں کامیابی ملی۔ کئی افغان سرداروں نے پیش ہو کر اپنی اطاعت کا اعلان کر دیا۔طہماسپ شاہ اور ان کے درباری خوش نہیں تھے لیکن نادر شاہ نے ان سرداروں کا استقبال کیا اور مستقبل میں ابدالی افغان نادر شاہ کے انتہائی قابل اعتماد اتحادی اور فوج کا اہم حصہ ثابت ہوئے۔ اس مہم نے ایرانیوں کا اعتماد بحال کیا تھا اور وہ اب اپنی سلطنت کی واپسی کے لیے غلزئی افغانوں کے سامنے کے لیے تیار تھے۔
Xxxx
نادر شاہ کاامام رضا کے مزار پر بھکاریوں سے مکالمہ

نادر شاہ مشہد پر قبضہ مکمل ہوتے ہے امام رضا کے مزار پر حاضری کے لیے گئے اور زمین چوم کر اپنی کامیابی پر شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے بعد میں اس کے گنبد کی سجاوٹ میں بھی اضافہ کیا اور ایک نیا مینار بھی تعمیر کروایا جو آج تک قائم ہے۔ اس عقیدت کے اظہار سے نادر شاہ کی فوج کے قزلباش فوجی اور مذہبی حلقے یقینا‘ خوش ہوئے ہوں گے۔

نادر شاہ کے بارے میں اسی وقت کا ایک قصہ بھی مشہور ہوا۔ انھوں نے مزار کے باہر نابینہ ہونے کی ایکٹنگ کرنے والے ایک بھکاری سے پو چھا کہ وہ کب سے مزار پر اپنی آنکھیں ٹھیک ہونے کے لیے دعا مانگ رہا ہے۔ اس نے کہا دو سال۔ نادر شاہ نے اسے کہا کہ اگر دو سال دعا مانگنے کے بعد بھی اس کی آنکھیں ٹھیک نہیں ہو رہیں تو اس کا مطلب ہے اس کا ایمان بہت کمزور ہے۔

نادر شاہ نے اس بھکاری سے کہا کہ اگر ان کے مزار سے باہر آنے تک اس کی آنکھیں ٹھیک نہ ہوئیں تو وہ سمجھیں گے کہ اس کا ایمان ٹھیک نہیں اور وہ اس کا سر قلم کر دیں گے۔

مؤرخ لکھتے ہیں جب نادر شاہ تھوڑی دیر میں واپس آئے تو اس فقیر نے آگے بڑھ کر انھیں کہا کہ ’معجزہ ہو گیا، معجزہ ہو گیا‘ آنکھیں ٹھیک ہو گئی ہیں۔ نادر شاہ نے ’مسکرا کر کہا کہ ایمان ہی سب کچھ ہوتا ہے‘ اور وہاں سے چلے گئے۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ سن 1726 کے آخر تک چند ہفتوں کے اندر اندر نادر شاہ ایک عام قبائلی سردار سے اٹھ کر صفوی بادشاہت کی بحالی کی روشن امید بن چکے تھے۔

شاہ طہماسپ کی شکست

سن 1726 میں مشہد کی فتح کے بعد سے نادر اور شاہ طہماسپ کے درمیان دوریاں پیدا ہونی شروع ہو گئیں۔ درباریوں نے طہماسپ کے کان بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور وہ فروری سن 1727 خاموشی سے مشہد سے چلے گئے اور ایک کرد شہر میں پہنچ کر نادر شاہ کو غدار قرار دے دیا اور پوری سلطنت میں نادر شاہ کے خلاف کارروائی کے لیے فوجی مدد طلب کر لی۔

نادر نے بھی کوئی وقت ضائع کیے بغیر مشہد میں طہماسپ اور ان کے وزرا کی ساری جائیداد ضبط کر لی اور اپنے بھائی ابراہیم خان کو انچارج بنا کر کرد شہر خبھوشن پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا۔ المختصر طہماسپ نے شکست دیکھتے ہوئے صلح کا فیصلہ کیا اور نادر کے پیچھے ہیچھے 21 مارچ کو نوروز کے دن زبردست تقریبات اور جشن کے بیچ واپس مشہد آگئے۔ دو ہفتے جاری رہنے والے اسی جشن کے دوران نادر شاہ کی ایک کرد سردار کی بیٹی سے شادی بھی ہوئی۔

تاہم مؤرخ بتاتا ہے کہ طہماسپ کا شکست تسلیم کرنا اور نہ ہی نادر کی شادی ان دونوں کے اختلافات کو ختم کر سکی۔ نادر کا کہنا تھا کہ صفوی سلطنت کے دارالحکومت اصفہان کی طرف پیشقدمی سے پہلے ہرات کے ابدالی افغانوں سے نمٹنا ضروری ہے جبکہ طہماسپ صفوی خاندان کی بادشاہت بحال کرنے کے لیے بے چین تھے۔

یہ آخری بار نہیں تھی جب ایک سابقہ سلطنت کا وارث اور مستقبل کا یہ بادشاہ آمنے سامنے آئے تھے۔ 23 اکتوبر 1727 کو طہماسپ ایک بار پھر نادر کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے۔ ان کی مایوسی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ شاہ طہماسپ ایک مہم کے دوران رات کو ہاتھ دھونے کے بہانے خیمے سے نکلے اور فرار ہونے کی ناکام کوشش کی۔ ابھی وہ خیمے سے کوئی میل بھر دور ہی گئے تھے کہ نادر شاہ ان تک پہنچ گئے۔

انھوں نے اپنا گلا کاٹنے کی کوشش لیکن نادر نے تیزی سے آگے بڑھ کر ان کا خنجر چھین لیا۔ اس واقعے کے بعد طہماسپ نے پھر نادر شاہ سے الگ ہونے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

نادر شاہ کی گونج یورپ اور روس کے شاہی درباروں میں

مغلیہ سلطنت کے خلاف کامیابی نے نادر شاہ کی ’عالمی شہرت کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔‘ دلی میں گزرے ان کے تقریباً دو ماہ کہانی تاجروں اور کاروباری لوگوں کی زبانی دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ ’انڈیا میں یورپی کمپنیوں کے نمائندوں اور پادریوں سے نادر شاہ کے بارے میں رپورٹیں طلب کی گئیں۔‘

ایکسوردی لکھتے ہیں کہ نادر شاہ کی کارروائیاں لندن کے اخبارات کی زینت بنیں۔ ’عثمانی اور روسی شاہی درباروں میں کچھ ہی عرصے بعد ہاتھیوں اور جواہرات پر مشتمل نادر شاہ کے بھجوائے ہوئے تحائف وصول کیے گئے۔‘ ایکسوردی لکھتے ہیں روس کو بھجوائے گئے جواہرات آج بھی سینٹ پیٹرزبرگ کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔

بات یہیں نہیں رکی چند ماہ میں مختلف یورپی زبانوں میں نادر شاہ کے بارے میں کتابیں شائع ہونے لگیں اور تقریباً ایک نسل بعد تک بھی سب کو نہیں بھی کم سے کم پڑھے لکھے طبقات ان کے نام سے واقف تھے۔

’دلی نادر شاہ کی زندگی کا عروج تھا۔‘ وہ تقریباً دو ماہ قیام کے بعد 16 مئی سن 1739 کو دلی سے روانہ ہوئے۔

لیکن دلی کے بعد نادر شاہ ’ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ وہ بیمار ہو گئے، ظلم، غصہ اور لالچ ہی اب ان کی شخصیت تھی اور آخر میں اپنے ہی افسروں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔‘

نادر شاہ: عروج کے بعد زوال

انڈیا سے واپسی پر نادر شاہ کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے رضا قلی نے جن کو وہ اپنی غیر حاضری میں اپنا جانشین بنا کر گئے تھے سابق صفوی بادشاہوں تہمسپ اور عباس کو مروا دیا تھا۔ اس کے علاوہ نادر شاہ اپنے بیٹے کے بہت بڑے دربار سے بھی ناخوش تھے۔ نادر شاہ نے رضا قلی سے نائب کا مقام چھین لیا۔ اس کے بعد باپ بیٹے کے تعلق میں دراڑ پڑتی گئی اور نادر شاہ کے ذہن میں خیال گھر گیا کہ ان کا بیٹا ان کے خلاف سازش کر رہا ہے۔

انڈیا کے بعد نادر شاہ نے ترکستان میں ایک کامیاب مہم کی اور داغستان کی طرف گئے لیکن وہاں انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی فوج خوراک کی کمی کا شکار تھی۔ نادر شاہ کی اس وقت تک اپنی صحت بھی خراب ہو چکی تھی۔ انھیں غالباً ’جگر کا مرض لاحق تھا جو ملیریا سے شروع ہوا اور زیادہ مہ نوشی سے بگڑ گیا۔‘

ایکسوردی لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ان کے اندر غصہ بھی بڑھتا جا رہا تھا اور نفسیاتی مسائل بھی ہیدا ہو چکے تھے۔ اسی دوران سن 1742 میں انھیں بتایا گیا کہ ان کے بیٹے رضا قلی نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ رضا قلی نے ان الزامات کی تردید کی لیکن نادر شاہ کو یقین نہیں آیا اور ان کی آنکھیں نکلوا دیں جس کے بعد ان کے تخت پر بیٹھنے کا سوال ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
’داغستان میں ناکامی، ان کی بیماری اور سب سے بڑھ کر بیٹے کی آنکھیں نکلوانے کے پچھتاوے نے ان کی زندگی میں ایسا بحران پیدا کیا انھیں ایک طرح سے نفسیاتی طور پر توڑ دیا اور وہ اس سے پھر کبھی باہر نہیں آسکے۔‘

ایکسوردی لکھتے ہیں کہ شاید بچپن میں انھوں نے جو غربت اور احساس کمتری دیکھا تھا اس کی وجہ سے نادر شاہ کے لیے ان کا خاندان ہمیشہ بہت اہم تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک نادر شاہ کے لیے ان کے خاندان کی باہمی وفاداری ایک اٹل پہلو تھا اور اسی یقین نے وہ بنیاد فراہم کی جس کی مدد سے انھوں نے ایک سلطنت قائم کی تھی۔ ’اب یہ بنیاد ہل چکی تھی، اور ان میں پہلے جیسی توانائی غائب ہو گئی تھی۔۔۔ اور ان کی جسمانی اور ذہنی صحت تیزی سے بگڑ گئی۔‘

داغستان سے پسپائی کے بعد بعض اطلاعات کے مطابق پہلے سے طے شدہ ایک منصوبے کے تحت عثمانوی عراق میں کارروائی کے لیے نئی فوج تیار کی گئی جو ’اپنے وقت میں کسی ایک ملک کی طاقتور ترین فوج تھی۔‘

دنیا کی سب سے بڑی فوج‘

’نادر شاہ نے سینکڑوں نئی توپوں کے ساتھ اپنے توپخانے کو سب سے آگے روانہ کیا۔ ان کی فوج کے تنخواہوں کا ریکارڈ رکھنے والے ایک اہلکار کے مطابق سن 1743 کی اس مہم کے آغاز میں ان کی فوج تین لاکھ پچھتر ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی جن میں بہت تھوڑی تعداد شیعہ ایرانیوں کی تھی۔ اس فوج میں ’60 ہزار ترکمان اور ازبک، 70 ہزار افغان اور انڈین، 65 ہزار خراسانی اور ایک لاکھ بیس ہزار کا تعلق مغربی ایران اور 60 ہزار کا آذربائیجان اور کوہ قاف سے تھا۔‘

یہ فوج یورپ کی دو بڑی طاقتوں آسٹریا اور پرشیا دونوں کی افواج کو ملا کر بھی ان سے بڑی تھی۔ لیکن اس کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ تھی۔

دلی کی مہم کے بعد ایران میں تین سال تک ٹیکس کی چھوٹ اور اس سے پیدا ہونے والی اقتصادی خوشحالی اب ماضی کا حصہ بن چکی تھی۔

ایکسوردی لکھتے ہیں کہ نادر شاہ کو معلوم تھا کہ اتنی بڑی نئی جنگی مہم کے کیا اثرات ہوں گے لیکن اب شاید اسے اس کی پرواہ نہیں تھی۔ بغداد کی مہم کی مہم سے پیدا ہونے والی مشکلات سن 1740 کی دہائی میں بڑھتی گئیں۔ معیشت رک گئی، لوگ ٹیکس لینے والوں سے بچنے کے لیے گھر بار چھوڑ کر جنگلوں بیابانوں میں چھپنے پر مجبور ہونے گلے۔ بڑی تعداد میں لوگ بغداد، بصرہ اور مشرق میں انڈیا کی طرف نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئے۔

مختلف اندازوں کے مطابق سن 1722 سے پہلے کے مقابلے میں ’تجارت کا ہجم پانچ گنا کم ہو گیا۔‘ سن 1736 میں نادر شاہ کے قندھار کوچ کرنے کے بعد سے سلطنت میں ’نسبتاً امن‘ تھا لیکن ٹیکسوں اور مایوسی اور پریشانیوں نے نئی بغاوتوں کو جنم دینا شروع کر دیا تھا۔

’نادر شاہ کی کہانی میں فوج اور اس کے لیے ٹیکسوں کا نفاذ ایک مستقل پہلو ہے۔‘

نادر شاہ کی آخری رات

مؤرخ ہمایوں کوتازیان لکھتے ہیں کہ سن 1746 میں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ معاہدے کے بعد دونوں سلطنتوں نے سن 1639 والی سرحدیں قبول کر لی تھیں۔ تاہم وہ لکھتے ہیں کہ دریں اثنا نادر شاہ کا ظلم دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔

’سیستان ایک بغاوت کو کچلنے کے لیے جاتے ہوئے ان میں ذہنی عدم توازن کے آثار نظر آئے۔‘ وہ لکھتے ہیں کہ نادر شاہ کا رویہ اتنا عجیب ہو گیا کہ ان کے اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں کو اپنی زندگی خطرے میں نظر آنے لگی۔

اور پھر ایک دن نادر شاہ نے اپنے ایرانی کمانڈروں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ابدالی افغانوں کو اپنی سکیورٹی کی ذمہداری سونپ دی اور ایرانی کمانڈروں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔
Xxxx
یہ 19 جون سن 1747 کی شام تھی۔ ایکسوردی لکھتے ہیں کہ نادر شاہ نے اپنی فوج میں 4000 ہزار سپاہیوں کے 24 سالہ کمانڈر احمد خان ابدالی کو طلب کیا۔

ایکسوردی لکھتے ہیں کہ سن 1738 میں جب نادر شاہ نے قندھار فتح کیا تھا تو نوجوان احمد خان ابدالی اس کی ایک جیل میں قید تھے۔ احمد خان ابدالی کی ایرانی فوج میں موجودہ حیثیت نادر شاہ کی مرہون منت تھی۔

نادر شاہ نے انھیں بتایا کہ انھیں شک ہے کہ ان کے ایرانی گارڈ انھیں قتل کرنا چاہتے ہیں اور انھوں نے احمد خان ابدالی کو ان گارڈوں کو اگلی صبح گرفتار کر کے سکیورٹی کی ذمہداری خود سنبھالنے کا حکم دیا۔ لیکن یہ گفتگو شاید ایرانی گارڈوں نے سن لی تھی۔

نادر شاہ کے ایرانی دستے نے فیصلہ کیا کہ ان کے پاس صرف ایک یہی رات ہے۔ کارروائی کے لیے ستر قابل اعتماد امرا اور افسران کا ایک گروپ تیار کیا گیا۔ نادر شاہ اس رات اپنے معمول کے خیمے کی بجائے اپنی بیوی چکی کے خیمے میں سونے گئے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ اس رات کے واقعات کی تفصیل ان تک چکی کی ہی کی وجہ سے پہنچی ہیں۔
https://www.highcpmrevenuenetwork.com/z669iptyd?key=57b10bc3093557f5ef38603c58f03a7e
’نادر شاہ چکی کو یہ کہہ کر لیٹ گئے کہ اگر وہ گہری نیند میں جائیں تو انھیں جگا دیا جائے۔ حملہ آور حرم کے دروازے پر آئے تو ان میں سے زیادہ تر نے آگے آنے سے انکار کر دیا۔ صرف چند آگے بڑھے اور مزاحمت کرنے والے ایک سیاہ فام خواجہ سرا کو قتل کر دیا۔ شور سے چکی کی آنکھ کھلی اور اس نے نادر شاہ کو بھی جگایا۔ نادر شاہ نے فوراً لپک کر اپنی تلوار پکڑی لیکن پاؤں کسی چیز میں الجھنے کی وجہ سے وہ گر پڑے۔ اور اسی حالت میں ایک حملہ آور سالار خان نے ان پر گردن اور کندھے کے بیچ میں وار کیا اور ان کا بازو کاٹ دیا لیکن پھر وہ خود ہی سکتے میں چلا گیا۔‘

’نادر شاہ زمین پر پڑے تھے اور خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ انھوں نے اٹھنے کی ناکام کوشش کی۔ انھوں نے حملہ آوروں سے نہ مارنے کی اپیل کی۔ لیکن ایک اور حملہ آور محمد خان قجر نے آگے بڑھ کر ایک ہی وار میں ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔‘

اس کے ساتھ ہی ’نادر شاہ کی کہانی گمنامی سے شروع ہو کر ٹریجڈی کی تصویر بنتی ہوئی سفاک سازشوں، فوجی کامیابیوں، شان و شوکت اور دولتمندی اور کوتاہیوں، مایوسیوں، انتہائی ظالمانہ کارروائیوں کے بعد ذہنی اضطراب سے گزر کر موت کے منہ میں چلی گئی۔‘

نادر شاہ کی ہلاکت کے بعد کی دہائیاں ’تشدد، افراتفری، تباہی‘ کی کہانی ہیں۔ ایکسوردی لکھتے ہیں ان کی فوج جس میں وہ مختلف کمانڈروں اور نسلوں کے درمیان مقابلے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ان کے بعد ایک نہ رہ سکی۔ ’اسکندر اعظم کی فوج کی طرح ان کی فوج بھی مختلف جرنیلوں میں بٹ گئی جن میں احمد خان ابدالی تھے جنھوں نے درانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔
ایکسوردی لکھتے ہیں نادر شاہ کے دور میں پہلی بار ان کے سپاہیوں کی اکثریت کو آتشیں اسلحہ دیا گیا اور ڈرل اور ٹریننگ پر بہت زور دیا جانے لگا جس کا آغاز یورپ میں ایک صدی پہلے ہو چکا تھا۔ فوج سائز میں بڑی ہوئی تو اس کا خرچہ بھی بڑھ گیا اور انھوں نے سلطنت کے ریاستی ڈھانچے کو بھی زیادہ فعال بنانے کے لیے تبدیلیاں کیں۔ یہ سب وہ باتیں تھیں جو عام طور پر یورپ کی خاصیتیں سمجھی جاتی تھیں۔

’اگر نادر کچھ دیر اور حکمران رہ جاتے اور سمجھداری سے حکومت کرتے اور ان سے اقتدار ایک قابل جانشیں کو منتقل ہوتا تو ان کی کامیاب فوج کے اخراجات کے لیے اصلاحات ایرانی انتظامیہ اور معیشت بالکل تبدیل ہو جاتی جیسا کہ یورپ میں ہو چکا تھا۔‘

اس سے ایران میں ’ایسی جدید ایرانی ریاست وجود میں آ سکتی تھی جو اگلی صدی میں شروع ہونے والی سامراجی قوتوں کی مداخلت کا مقابلہ کر نے کی اہل ہوتی۔‘

Post a Comment

0 Comments