ذریعہCHLOEتصویر کا JAFE
یہ 15 سال پہلے پیرس کے ایک شراب خانے سے شروع ہونے والی کہانی ہے۔
فوٹو گرافر کلوئی جیف نے بتایا کہ ’میں اور میری دوست بہت غمزدہ تھے کیونکہ ہم اپنے ساتھیوں سے جدا ہوئے تھے۔ ہم نے بہت شراپ پی اور پھر کہا کہ چلو جاپان چلتے ہیں حالانکہ کوئی اور جگہ بھی ہو سکتی تھی۔‘
جاپان کی ثقافت سے انجان کلوئی ایک ماہ بعد اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے سوچا کہ میں ایک بار پھر یہاں آؤں گی اور یہیں رہ جاؤں گی۔ مجھے لگا کہ یہاں مجھے کچھ کرنا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے
جاپان کی پرانی سیمورائی فلموں، سیریز، ناول کی مدد سے ان کی جرائم کی انڈر گراونڈ دنیا میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت پرکشش تھی۔‘
پراجیکٹ مکمل ہو گیا تو کلوئی سنہ 2019 میں فرانس واپس لوٹ گئیں
مردوں کی دنیا میں بسنے والی عورتیں;
اٹلی کے مافیا کی طرح مختلف گروہوں میں بٹے جاپانی انڈر ورلڈ کے یاکوزا جوئے، منشیات، اغوا برائے تاوان سمیت ہر قسم کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔
یاکوزا نام تین ہندسوں، 8، 9 اور 3 سے نکلا ہے جو جاپان میں ’یا‘، ’کو‘ اور ’سا‘ پکارے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ اس نام کو ناپسند کرتے ہیں اور ’گوکوڈو‘ (جس کا مطلب آخری راستہ) یا پھر ’ننکیو دنٹائی‘ (بہادر تنظیم) کے نام کو ترجیح دیتے ہیں('
ان کی تاریخ 17ویں صدی میں شروع ہوتی ہے لیکن یاکوزا کا عروج 20ویں صدی کے وسط میں ہوا جب دوسری عالمی جنگ کے بعد معاشی ترقی کی آڑ میں ان کا کاروبار بھی چمک اٹھا۔
تاہم جاپانی معاشرے اور پولیس میں جدت آنے کے بعد یاکوزا کو ایک دھچکہ پہنچا جب 1960 میں دو لاکھ ممبران سے یاکوزا کی تعداد کم ہو کر گذشتہ سال 12000 تک آ گئی۔
تاہم ان میں ایک قدر مشترک ہے، یہ سب ہی مرد ہیں
میں جاپانی گینگسٹرز کا ایک گروہ ٹوکیو میں، اس دور کو جاپان میں جرم کی دنیا کا ’سنہری دور‘ کہا جاتا ہے
کلوئی کہتی ہیں کہ ’مجھے وہاں کوئی عورت نہیں نظر آئی اور میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ کوئی تو عورت ہو گی لیکن وہ اس پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘
کلوئی کو ’یاکوزا مون‘ نامی ناول کے بارے میں پتا چلا جو ایک جاپانی گینگسٹر، شوکو تینڈو، کی بیٹی نے لکھا تھا۔ اپنی زندگی پر لکھی جانے والی اس کتاب میں انھوں نے ایک مجرم کی بیٹی ہونے کی وجہ سے مشکلات کا احاطہ کیا تھا۔
کلوئی کہتی ہیں کہ ’میں نے خود سے کہا کہ یہی میرا کام ہے، میں ان عورتوں سے ملوں گی اور تصویری طور پر کچھ بناؤں گی۔‘
کتاب پڑھنے کے بعد کلوئی نے جاپان کا ایک ٹکٹ خریدا۔ اس بار ان کا ارادہ وہاں رک کر یاکوزا خواتین کی تصویریں کھینچنا تھا۔
ایک فیصلہ کن ملاقات
2013 میں انھوں نے ٹوکیو میں رہائش اختیار کر لی۔ ان کو جاپانی زبان نہیں آتی تھی جس کو سیکھنا بہت مشکل ہے اور نہ ہی وہ کسی مقامی شخص کو جانتی تھیں لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔
’مجھے نہیں پتا کیسے لیکن میں جانتی تھی کہ ایسا ہو گا اور میں محنت کرنے کے لیے تیار تھی۔‘
دو سال بعد جاپانی زبان پر کسی حد تک عبور حاصل کرنے کے بعد ان کو ایک ہوسٹس کی نوکری مل گئی۔
یہ ایک ایسی ملازمت تھی جس میں ان کو نائٹ کلب میں مردوں کا ساتھ دینا پڑتا۔ ان مردوں سے بات چیت کرنا، گانے گانا، شراب پیش کرنا اور سگریٹ سلگانا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔
نائٹ کلب
لیکن وہ اکیلی نہیں تھیں۔ یہاں موجود دیگر خواتین کا یاکوزا مردوں سے تعلق تھا۔
کلوئی کہتی ہیں کہ ’ان میں سے کسی کا بوائے فرینڈ یا باپ یاکوزا میں تھا۔ اکثر کلب مافیا ہی چلاتی تھی۔ اس دنیا میں داخل ہونے کے لیے وہ اچھی جگہ تھی۔‘
لیکن ان کو ایک دن اچانک ایک مقامی فیسٹیول کے دوران دن دیہاڑے ایک سینیئر یاکوزا سے ملاقات کا موقع ملا۔
’میں وہاں بیٹھی تھی کہ ایک شخص جس نے روایتی جاپانی کیمونو پہن رکھا تھا، دو محافظوں کے ساتھ آ کر میرے پاس ہی بیٹھ گیا۔ میں اسے نہیں جانتی تھی لیکن یہ واضح تھا کہ وہ ایک اہم شخصیت تھی۔‘
یہ شخص جاپانی مافیا کا ایک سینیئر عہدیدار تھا جسے مقامی زبان میں ’اویابن‘ یا اٹلی میں ’کیپو‘ کہا جاتا ہے۔
اس نے کلوئی کو اپنی میز پر دعوت دی اور انھوں نے فیسٹیول کی تصاویر بھجوانے کے بہانے ان کا نمبر حاصل کر لیا۔
’میں نے تصاویر بھیج کر اسے کھانے کی دعوت دی۔ یہ اس کے لیے حیران کن تھا اور سچ تو یہ ہے کہ خود میں بھی خوفزدہ تھی۔‘
سانجا ماتسوری تہوار ان چند عوامی تقریبات میں سے ایک ہے جہاں یاکوزا اپنے ٹیٹو دکھاتے ہیں
یاکوزا کے درمیان
مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
جاپانی روایت میں دعوت دینے کا اختیار مرد کے پاس ہی ہوتا ہے تاہم کلوئی نے خود ہی ریستوران کا انتخاب کیا جو ایک پولیس سٹیشن اور سب وے سٹیشن کے قریب تھا تاکہ ان کے لیے وہاں سے فرار ہونا آسان ہو۔ ریستوران میں کلوئی کو وہ شخص اپنے محافظوں کے ساتھ موجود ملا۔
اگرچہ وہ مقامی زبان جانتی تھیں، انھوں نے بہتر سمجھا کہ اپنا اصل مقصد ایک کاغذ پر لکھ دیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’میں ایک فرانسیسی فوٹو گرافر ہوں اور جاپان کی مافیا میں موجود خواتین کی تصاویر لینا چاہتی ہوں، باعزت طریقے سے، جس کے لیے مجھے آپ کی مدد درکار ہے۔‘
ان کو مثبت جواب ملا۔ ’اس نے مجھے کہا کہ دیکھو، میں تمہیں جاپان میں سب لوگوں سے ملوا سکتا ہوں۔‘
لیکن پہلے کلوئی کو ان کا اعتماد حاصل کرنا تھا۔
کلوئی بتاتی ہیں کہ ’اس نے دیکھا کہ میں نوجوان ہوں، پرکشش ہوں اور اس نے سوچا کہ کیا وہ مجھے کسی اور کام کے لیے استعمال کر سکتا ہے یا نہیں۔ وہ میری نیت بھی جاننا چاہتا تھا یعنی قصہ مختصر مجھے جانچنا چاہتا تھا۔‘
رفتہ رفتہ ان کو یاکوزا کی تقریبات میں مدعو کیا جانے لگا۔
’مجھے اس کے محافظ گاڑی میں لینے آتے اور مجھے علم نہیں ہوتا تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، یہ ایک فلمی کہانی کی طرح تھا۔ کچھ وقت تک جب میں کوئی سوال کرتی تو وہ جواب نہیں دیتا تھا۔ یہ کچھ تناؤ کے لمحات تھے۔‘
لیکن ایک وقت آیا کہ اسی شخص کی بیوی، جو پہلے کلوئی پر اعتماد نہیں کرتی تھی، سے ان کی دوستی ہو گئی اور پھر ان کو نئے سال کی چھٹی ساتھ منانے کی دعوت ملی۔
وہاں کلوئی کی ملاقات ایک اور مافیا باس کی بیوی سے بھی ہوئی۔ انھوں نے تب اپنی پہلی تصاویر لیں اور یاکوزا میں نئے لوگوں تک رسائی بھی حاصل کی۔
کلوئی بتاتی ہیں کہ ’مجھے شک ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو تصاویر نہیں کھنچوانا چاہتے تھے لیکن ان کو ایسا کرنا پڑا کیونکہ میں ان کی باس کی دوست تھی۔‘
ٹوکیو کے بعد جاپان کے دیگر مقامات، اوساکا اور اوکیناوا، میں بھی کلوئی نے تصاویر کھینچیں۔
اوکیناوا میں ہی، جہاں جاپانی مافیا پھلی پھولی اور جہاں خطے میں امریکی فوج کا سب سے بڑا اڈہ بھی ہے، کلوئی کی پہلی سیریز نے جنم لیا جس میں اس جزیرے کے سب سے تاریک ترین پہلو کو اجاگر کیا گیا۔
ٹیٹو
کلوئی کی تصاویر میں جو چیز بہت اجاگر ہوتی ہے وہ یاکوزا خواتین کے جسم پر بنے ٹیٹو ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جاپانی مافیا بہت دلچسپ ہے کیونکہ اس کا جاپان کی ثقافت سے گہرا تعلق ہے جیسا کہ ٹیٹو جو یہاں کے دیومالائی قصوں سے جڑے ہیں۔ یہ تقریباً ایک ثقافتی مافیا ہے۔‘
اگرچہ دنیا میں آج کسی مقام پر کسی کے جسم پر سانپ یا ڈریگن کا ٹیٹو دکھائی دینا عجیب بات نہیں تاہم جاپان میں ٹیٹو کو مختلف نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
کلوئی بتاتی ہیں کہ ’جاپان میں ٹیٹو دکھانے کے لیے نہیں بنوائے جاتے۔‘
جاپانی معاشرہ ٹیٹو کو جرم کے ساتھ منسلک کرتا ہے
جاپانی معاشرہ ٹیٹو کو جرم کے ساتھ اس حد تک منسلک کرتا ہے کہ مخصوص عوامی مقامات اور سوئمنگ پولز میں ان کی نمائش پر پابندی عائد ہے۔
یاکوزا کے لیے ان کے ٹیٹو اپنے گروہ سے وفاداری کے ساتھ ساتھ درد سہنے کی طاقت کی بھی علامت ہیں کیونکہ ان کے جسم پر ٹیٹو ایک روایتی اور پرانے طریقے سے بنائے جاتے ہیں جس میں لکڑی کی چھڑی اور سویاں استعمال ہوتی ہیں جو سست اور زیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔
عقیدت: زندگی کا ایک طریقہ
کلوئی کی پہلی سیریز کو ’میں اپنی زندگی تمہیں دیتی ہوں‘ کا نام دیا گیا۔ یہ مافیا کی خواتین کی مردوں سے عقیدت کی جانب اشارہ ہے۔
’وہ جانتی ہیں کہ ان مردوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ معاشرے سے کٹ کر رہ جائیں گی کیونکہ جاپان میں کوئی مافیا سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہتا لیکن پھر بھی وہ محبت میں گرفتار ہو کر ان کی ہو کر رہ جاتی ہیں۔‘
یہ تصویر کھینچنے کے بعد کلوئی کو لگا کہ ان کا مقصد حاصل ہو گیا ہے
یہ خواتین مافیا کی باقاعدہ رکن تو نہیں ہوتیں تاہم ان کا ایک کردار ضرور ہوتا ہے خصوصاً یاکوزا کی قیادت کی سطح پر۔
کلوئی بتاتی ہیں کہ ’جب کوئی عورت کسی مافیا باس سے شادی کرتی ہے تو اسے دیگر اراکین کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ان کی نجی معلومات، ان کی کہانیاں جاننی پڑتی ہیں اور ہر بات کا علم رکھنا ہوتا ہے کیونکہ اگر ان کے شوہر کو کچھ ہو جائے تو اگلے باس کی تعیناتی تک وہ ہی باس ہوتی ہیں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ یاکوزا میں داخل ہونے کے بعد نکلنے کا راستہ مشکل سے ہی ملتا ہے۔
’جو عورتیں یاکوزا سے طلاق لیتی ہیں وہ مشکل میں پڑ جاتی ہیں کیونکہ وہ کبھی نکل نہیں سکتیں۔ وہ مافیا کی مدد سے محروم ہو جاتی ہیں لیکن ان کے لیے جاپانی معاشرے میں اپنی جگہ بنانا اور اپنی زندگی نئے سرے سے بسر کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی انڈر ورلڈ نہیں چھوڑ سکتیں۔‘
ان میں سے بہت سی خواتین ہوسٹس کلب، اکاوئنٹس کے ساتھ ساتھ دیگر قانونی اور غیر قانونی کاروبار چلانے میں مدد دیتی ہیں۔
جب ان کا پراجیکٹ مکمل ہو گیا تو کلوئی سنہ 2019 میں فرانس لوٹ گئیں۔ جاپانی معاشرے کے تہہ خانوں میں تقریبا سات سال گزارنے کے بعد ان کو لگتا ہے کہ اب وہ پہلی والی کلوئی نہیں رہیں۔
’میں نے ان کے ساتھ بہت وقت بتایا اور مجھے ایسا لگا کہ میں ان کا ہی حصہ ہوں۔ انھوں نے مجھے اپنی بیٹی کی طرح رکھا تو وہ جاپان میں میرا خاندان بن گئے۔‘
#japnesegangsters
#stories in urdu
#mafias
#journalists in threats
#urdu kahania
#اردو کہانی
0 Comments